Haizah Aurat Ke Masai'il

●حیض ونفاس سے آٹھ چیزیں حرام ہوجاتی ہیں●



حیض و نفاس سے آٹھ چیزیں حرام ہوجاتی ہیں۔

1. نماز

2. روزہ

3. قرآن پاک ایک آیت پڑھنا

4. قرآن پاک کو ہاتھ لگانا

5. مسجد میں داخل ہونا

6. جماع کرنا

7. طواف کرنا

8. ناف کے نیچے سے لے کر گھٹنوں کے نیچے تک درمیان سے نفع حاصل کرنا۔



   ●حالت حيض ميں جماع  سے ممانعت●


1. حیض کے حالت میں جماع حرام ہے۔


2. حیض کی حالت میں جماع جائز سمجھنا کفر ہے۔


3. اگر کسی نے اس حالت میں حرام سمجھ کر جماع کرلیا تو اس پر توبہ فرض ہے۔ 



اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا،

ترجمہ: اور ان سے نزدیکی نہ کرو جب تک پاک نہ ہولیں۔

( کنز الایمان، آیت نمبر 12)



حدیث پاک حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ اللہ کے محبوب ﷺ نے فرمایا، جو حیض والی عورت سے یا پیچھے کے مقام میں جماع کرے یا کاہن کے پاس جائے اس نے کفران کیا ان سب چیزوں کا جو محمدﷺ پر اتاری گئیں۔

(ترمذی)



مسئلہ: ایک عورت کی عادت چھ دن خون آنے کی تھی اس مہینے اس کو پانچ دن خون آکر بند ہوگیا، وہ غسل کر کے نماز روزہ شروع کردے۔ اس سے صحبت جائز نہیں۔

(بحر الرائق)



اگر عادت سے کم میں حیض ختم ہو تو جماع جائز نہیں اگرچہ غسل کرلیں، کیوں کہ عادت کی طرف لوٹنا غالب ہے۔ 



مسئلہ: 1. ایک عورت کی سات دن حیض کی عادت تھی اب بھی سات روز ہی خون آکر بند ہوگیا تو اگر عورت نہالے تو اس سے صحبت جائز ہے۔



2. اگر بوجہ مرض یا پانی نہ ہونے کے تیمّم کرنا ہو تو تیمّم کر کے نماز ہی پڑھ لیں۔



3. یا اس پر نماز پنجگانہ میں کسی کا وقت گزر جائے جس میں کم از کم اس نے اتنا وقت پایا کہ نہا کر سر سے پاؤں تک چادر لپیٹ کر تکبیر تحریمہ کہہ سکتی تھی تو ایسی عورت سے بے طہارت صحبت جائز ہے۔




مسئلہ: اگر دس دن کامل میں عورت کو خون آکر بند ہوگیا تو اس سے بغیر غسل کے بھی صحبت جائز ہے اور مستحب یہ ہے کہ جب تک غسل نہ کرے جماع نہ کرے۔



اہم مسئلہ: ایام حیض میں عورت سے زیر ناف سے رانوں تک عورت کے بدن سے بغیر کسی پردہ کہ جس کے سبب جسم عورت کی گرمی اس کے جسم کو نہ پہنچے تمتع (فائدہ اٹھانا) جائز نہیں۔ یہاں تک کہ اتنے ٹکڑے پر بدن پر شہوت سے نظر بھی جائز نہیں اور اتنے ٹکڑے کا بلا شہوت چھونا بھی جائز نہیں اور اس سے اوپر نیچے کے بدن سے مطلقا ہر قسم کا تمتع جائز ہے۔ فارغ ہونا پیٹ پر جائز ہے اور ران پر ناجائز

(فتاوی رضویہ جلد نمبر 4 صفحہ 353 رضا فاؤنڈیشن)



اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں،

حالت حیض و نفاس میں ناف سے رانوں تک عورت کے بدن سے بلا کسی حائل کہ جس کے سبب عورت کے جسم کی گرمی اس کے جسم کو نہ پہنچے تمتع (فائدہ اٹھانا) جائز نہیں۔ یہاں تک کہ اتنے بدن کے ٹکڑے پر شہوت سے نظر بھی جائز نہیں اور اتنے ٹکڑے کا چھوٹا بلا شہوت بھی جائز نہیں۔

(فتاوی رضویہ جلد نمبر 4، صفحہ 353رضا فاؤنڈیشن)




مسئلہ: حالت حیض میں عورت کے ناف اور گھٹنے کے درمیان کی جگہ کے علاوہ سب بدن سے مساس اور فائدہ لینا درست ہے۔

(در مختار)





   ●حالت حیض میں جماع کرنے کا کفارہ●


اگر جماع ایسی حالت میں کیا جب کہ خون سرخ آرہا ہے۔ آمد کا زمانہ ہے تو ایک دینار کا صدقہ کرنا مستحب ہے اور اگر حیض کے ختم کے قریب گیا تو نصف دینار خیرات کرنا مستحب ہے۔ اگر کوئی شخص اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو توبہ و استغفار کرے۔



حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول پاک ﷺ نے فرمایا،"جب آدمی اپنی عورت سے حالت حیض میں جماع کرلے تو چاہیے کہ نصف دینار صدقہ کرے"۔



ترمذی کی روایت اس طرح ہے کہ نبی پاک ﷺ نے فرمایا،

"جب خون سرخ ہو تو ایک دینار اور زرد ہو تو نصف دینار صدقہ کرے"۔



مسئلہ: حالت حیض میں ناف سے گھٹنے تک عورت کے بدن سے مرد کا اپنے کسی عضو کو چھانا جائز نہیں جب کہ کپڑا وغیرہ حائل نہ ہو شہوت سے ہو یا بے شہوت۔ اگر اس پر موٹا کپڑا حائل ہو کہ بدن کی گرمی محسوس نہ ہوگی تو حرج نہیں۔

(بہار شریعت)



مسئلہ: بحالت حیض ناف سے اوپر اور گھٹنے سے نیچے عورت کو چھونے یا کسی طرح کا نفع لینے میں کوئی حرج نہیں۔

(بہار شریعت حصہ دوم)



ایسی حالت میں عورت سے بوس و کنار جائز ہے۔


اپنے ساتھ کھلانا، سونا جائز ہے بلکہ اس وجہ سے اس کے ساتھ نہ سونا مکروہ ہے۔



ناف سے گھٹنوں تک کے حصے کو برہنہ دیکھنا جائز نہیں۔



نوٹ:  اگر ایک ساتھ سونے میں شہوت کا غلبہ ہو اور مرد کا اپنے آپ کو قابو میں نہ رکھنے کا احتمال ہو تو ساتھ نہ سوئے، اور اگر شہوت کاگمان غالب ہو تو ساتھ سونا گناہ ہے۔



نوٹ: حیض کی حالت میں عورت بدن کے ہر حصے کو ہاتھ لگا سکتی ہے۔


حیض والی عورت کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا جائز ہے اسے اپنے ساتھ کھلانا بھی جائز ہے۔ان باتوں سے احتراز کرنا (بچنا) یہود و مجوس کا طریقہ ہے۔ حائضہ عورت کا چھونا، اس کو جوٹھا کھانا، پینا بھی جائز ہے۔

(فتاوی رضویہ جلد نمبر 4 صفحہ 355)




●حیض والی عورت کے لیے نماز●


1. حالت حیض میں نماز پڑھنا حرام ہے۔



2. ان دنوں میں نمازیں معاف ہیں۔ ان کی قضاء بھی نہیں۔



ام امؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ: "سرکار مدینہﷺ کے ظاہری زمانے میں ہم حیض سے پاک ہوکر روزوں کی قضا کرتے تھے اور نمازوں کی قضا نہیں کرتے تھے"۔

(صحاح)



اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر نماز معاف نہ ہوتی تو بالفرض اگر کسی عورت کو تین دن بھی حیض آتا تو ہر مہینے میں اس کی قضا نماز 60 رکعتیں ہوتی اور سال کی 720 رکعتیں ہوتیں۔ اس میں تکلیف اور حرج بہت تھا۔ اس لیے نماز کو معاف فرمایا کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے;


ترجمہ کنز الایمان: "اللہ کسی جان پر بوجھ نہیں ڈالتامگر اس کی طاقت بھر"۔




دوسری وجہ یہ ہے کہ حضرت آدم نے جب حضرت حوا علیہا السلام کو مبتلائے حیض دیکھا تو بارگاہ رب العزت سے نماز کا حکم دریافت فرمایا تو بارگاہ اقدس سے معافی کا حکم صادر ہوا۔ حضرت صفی اللہ نے روزے کا حکم اپنے قیاس سے نماز پر دے دیا شان بے نیازی نے اس دخل کو پسند نہیں فرمایا اس لیے روزے کی قضاء ہوئی۔

(رکن دین۔ کتب خانہ شان اسلام صفحہ 14)




3. نماز کا آخری وقت ہوگیا ابھی تک نماز نہیں پڑھی تھی کہ حیض آگیا تو اس وقت کی نماز معاف ہوگئی۔ اگرچہ اتنا تنگ وقت ہوگیا ہو کہ اس نماز کی گنجائش نہ ہو۔




4. فرض نماز پڑھتے حیض آگیا تو وہ نماز معاف ہے۔ پاک ہونے کے بعد اس کی قضا نہ کرے۔




5. اگر نفل نماز پڑھ رہی تھی حیض آگیا تو اس کی قضا واجب ہے۔




6. حیض والی کو تین دن سے کم خون آکر بند ہوگیا تو نماز پڑھے غسل کی ضرورت نہیں۔




7. کسی عورت کے عادت کے دن مقرر تھے یعنی پانچ دن یا سات دن وغیرہ لیکن ابھی پانچ دن پورے نہ ہوئے تھے کہ خون بند ہوگیا تو چاہیے کہ غسل کر کے نماز پڑھے۔ عادت کے دن انتظار نہ کرے۔




8. نماز کے وقت اتنی دیر تک وضو کر کے ذکر وغیرہ میں مشغول رہیں تاکہ عادت رہے۔




9. اگر کسی عورت کو ایک دودن خون آکر بند ہوگیا تو غسل کرنا واجب نہیں وضو کر کے نماز پڑھے لیکن نماز کے مستحب وقت کے آخر کا انتطار کرنا واجب ہے کہ شاید دو بارہ خون آجائے۔




10. اگر دس دن سے کم حیض آیا اور ایسے وقت خون بند ہوا کہ نماز کا وقت بالکل تنگ ہے کہ جلدی اور پھرتی سے غسل کرلے تو نہانے کے بعد ذرا سا وقت بچےگا جس میں صرف ایک مرتبہ اللہ اکبر کہہ کر نیت باندھ سکتی ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں پڑھ سکتی ایسی صورت میں اس وقت کی نماز واجب ہوجائے گی۔ اور اگر نہ پڑھی تو بعد میں قضا کرنی پڑے گی اور اگر اس سے بھی کم وقت ہو تو معاف ہے اس کی قضا کرنا واجب نہیں۔




11. اگر غسل کرنے کے بعد اللہ اکبر کہنے اور نیت کا وقت باقی ہو تو نیت باندھ کر نماز شروع کر دیں۔ اگرچہ نیت کے بعد نماز کا وقت نکل بھی جائے تو بھی نماز پوری کرے ایسی صورت میں نماز قضا نہیں کرنی پڑے گی۔ لیکن صبح کے وقت (فجر) میں نیت باندھنے کے بعد سورج نکل آئے تو نماز ٹوٹ گئی پھر سے قضا کرے۔




12. اگر پورے دس دن رات حیض آیا اور ایسے وقت خون بند ہوا کہ بالکل ذرا سا وقت رہ گیا کہ ایک مرتبہ اللہ اکبر کہہ سکتی ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں پڑھ سکتی اور غسل کرنے کی بھی گنجائش نہیں تو بھی نماز واجب ہے اس کی قضا پڑھنی پڑے گی۔




13. حیض والی عورت کے لیے مستحب ہے کہ جب نماز کا وقت ہو تو وضو کرے اور اپنے گھر میں نماز پڑھنے کی جگہ میں اتنی دیر بیٹھے جتنی دیر میں نماز ادا کرتی ہے اتنی دیر سبحان اللہ، لا الہ الا اللہ، درود پاک اور استغفار پڑھتی رہے تاکہ عادت قائم رہے۔




14. جس عورت کو پہلی مرتبہ حیض آیا اور دس دن سے کم میں وہ پاک ہوجائے یا عادت والی عورت عادت سے کم دنوں میں پاک ہوجائے تو غسل اور وضو میں اس قدر تاخیر کرے کہ نماز کا مکروہ وقت نہ آجائے یعنی نماز کے مستحب وقت کے آخر میں نماز ادا کرے۔




15. نفل یا سنت نماز پڑھنے کے دوران حیض آگیا تو اس کو قضا پڑھنی پڑھے گی۔




       ●حیض والی عورت کے لیے روزے●


1. حیض کی حالت میں روزہ رکھنا حرام ہے۔



2. حیض کی حالت میں جو روزے چھوٹ گئے ان کی اوردنوں میں قضا کرنا فرض ہے۔ آئندہ رمضان آنے سے پہلے اپنے ذمے فرض روزوں کی قضا ضروری ہے۔



3. اگر دس دن سے کم میں پاک ہوئی اور رات کا اتنا وقت باقی نہیں کہ اللہ اکبر کہہ لیں تو اس دن کا روزہ اس پر واجب ہے۔



4. اگر دس دن سے کم میں پاک ہوئی اور اتنا وقت ہے کہ صبح صادق سے پہلے نہا کر کپڑے پہن کر اللہ اکبر کہہ سکتی ہے تو روزہ فرض ہے۔ اگر نہالے تو بہتر ہے ورنہ بغیر نہائے روزہ کی نیت کرلیں۔ صبح صادق ہونے پر نہالے۔



5. اگر دن کے کسی حصے میں پاک ہوئی تو روزہ داروں کی طرح رہنا واجب ہے۔ کوئی ایسی چیز نہیں کرسکتی جو روزے کے خلاف ہو۔ یعنی روزہ کی حالت کے مطابق رہے۔

(بہار شریعت) 



6. مغرب سے تھوڑی دیر پہلے بھی حیض آگیا تو روزہ جاتا رہا۔



7. اگر نفلی روزے میں حیض آجائے تو اس کی بھی قضا کرے۔



نوٹ:  بہت سی عورتیں اس غلط فہمی کا شکار ہوتی ہیں کہ اگر روزے کی حالت میں کسی دن ان کو آگیا تو سمجھتی ہیں کہ زوال سے پہلے اگر حیض آگیا تو روزہ افطار نہیں کرسکتی۔ اس کی کوئی اصل نہیں۔ بلکہ دن کے کسی بھی حصے میں اگر اس کو حیض آگیا تو وہ روزہ افطار کرسکتی ہے اور اس کو اس دن کے روزے کی قضا کرنی پڑے گی۔



اس کی وجہ یہ ہے کہ فرض روزے پورے سال میں ایک ماہ کے ہوتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ حیض کے دس دن ہیں بس دس دن کے روزوں کی قضا تمام سال میں کوئی حرج نہیں رکھتی۔ اگر کوئی عورت ہر ماہ بھی ایک روزہ رکھتی رہی تب بھی دس ماہ میں اس کے روزوں کی قضا ادا ہوجائے گی۔



8. اگر رمضان شریف میں دن میں پاک ہوئی تو اب پاک ہونے کے بعد کچھ کھانا پینا درست نہیں، شام تک روزہ داروں کی طرح رہنا واجب ہے لیکن یہ دن روزہ میں شمار نہ ہوگا بلکہ اس کی قضا بھی رکھنی پڑے گی۔




      ●حیض والی عورت کی لیے حج●


صحیح بخاری میں ہے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ہم حج کے لیے نکلے، جب سرف (ایک جگہ کا نام) میں پہنچے مجھے حیض آیا تو میں رو رہی تھی تو رسول اللہﷺ میرے پاس تشریف لائے فرمایا تجھے کیا ہوا؟ کیا تو حائضہ ہوئی عرض کی ہاں، فرمایا یہ ایک ایسی چیز ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے بنات آدم پر لکھ دیا ہے علاوہ خانہ کعبہ کے طواف کے "سب کچھ ادا کر جسے حج کرنے والا ادا کرتا ہے"۔ 



معلوم ہوا کہ اگر کسی عورت کو ایام حج میں حیض ہو تو وہ طواف کے علاوہ تمام حج کے ارکان ادا کرسکتی ہے۔ یعنی حرم کے اندر نہیں جائے گی۔ 



اگر عمرہ کا احرام باندھا تھا اور حیض شروع ہوگیا عمرہ ادا کرنے کا موقع نہیں ملا اور حج کے ایام شروع ہوگئے تو اب یہ عورت عمرہ کا احرام ختم کر کے حج کا احرام باندھ لے اور حج کے افعال شروع کردے بعد میں عمرے کی قضا کرلے۔ 



جو حائضہ حضورﷺ کے روضہ اقدس کی زیارت کےلیے حاضری دے اس کے لیے درود و سلام پڑھنا تو جائز ہے لیکن مسجد نبوی (ﷺ) میں داخل نہ ہو باہر سے پڑھ لے۔




    ●حیض والی عورت کے لیے طواف●


چونکہ طواف کے لیے مسجد میں جانا پڑتا ہے اور حیض والی عورت کا مسجد میں جانا حرام ہے۔ لہذا اگر کسی عورت کو حج کے ایام میں حیض آجائے تو وہ طواف نہیں کرسکتی۔ اس لیے خانہ کعبہ کے اندر جانا، اس کا طواف کرنا حائضہ عورت کے لیے حرام ہے۔

(نور الایضاح)



1. حج کو جاتے ہوئے راستہ میں حیض آگیا تو اسی حالت میں احرام باندھ لے اور موقع ہو تو احرام کے لیے غسل بھی کرلے اس غسل سے عورت پاک شمار نہیں ہوگی ایسی صورت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو پیش آئی تھی۔



2. اسی طرح مکہ شریف سے رخصت ہونے سے پہلے حیض شروع ہوگیا تو اب طواف وداع (یعنی وہ طواف جو حاجی رخصت ہوتے ہوئے کرتا ہے )معاف ہوگیا بغیر طواف کیے ہی چلی آئی ایسی صورت حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو پیش آئی تھی۔



3. اگر عورت کو طواف کرتے کرتے حیض آگیا چاہے طواف (فرض ہو، واجب یا نفل) تو اسی وقت مسجد سے باہر آجانا ضروری ہے اس کو پورا کرنا یا مسجد میں ٹھہرے رہنا گناہ ہے۔



4. اگر طواف کے چار یا اس سے زیادہ شوط (چکر)ہوگئے تو وہ طواف ادا ہوگیا اور جتنے چکر باقی رہ گئے اس کا صدقہ دے اور اگر چار چکر سے کم ہوئے تو وہ طواف ادا نہیں ہوا پاک ہونے کے بعد قضا کرے۔



نوٹ: صدقہ یہ ہے کہ ہر شوط (چکر)کے بدلے میں آدھا صاع گیہوں یا ایک صاع جو دے۔(صاع تقریباً ساڑھے تین کلو کا ہے)



5. اگر پورا یا اکثر طواف پاکی کی حالت میں کرلیا اس کے بعد حیض شروع ہوگیا اور ابھی صفا مروہ کی سعی باقی ہے تو اس کو حیض کی حالت میں کرسکتی ہے سعی کے لیے طہارت شرط نہیں اس طواف کے بعد تحیۃ الطّواف (دورکعت) نہ پڑھے۔



6. عمرہ کا احرام بھی حالت حیض میں صحیح ہے البتہ طواف اس حالت میں نہیں کرسکتی ہے اگر پورا طواف یا اکثر طواف کرنے کے بعد حیض شروع ہوا تو سعی کرسکتی ہے اور تحیۃ الطّواف معاف ہو جائے گا۔




●  حیض والی عورتوں کے لیے جائے نماز (مصلی) چھونے کا حکم●


حائضہ عورت جائے نماز چھو سکتی ہے، کیوں کہ حیض کی نجاست حکمی ہے، حقیقی نہیں یہ نماز, روزے کی ادائیگی، مسجد میں داخلہ اور قرآن چھونے سے مانع (منع کرنے والی) ہے۔ یہ نجاست حقیقی کی طرح انسان کو جلد نا پاک نہیں کرتی، جیسا کہ؛



حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، سرکار مدینہﷺ نے مجھ سے فرمایا،ذرا مسجد سے چٹائی (مصلی) اٹھاؤ میں نے کہا،''میں تو حائضہ ہوں ''آپﷺ نے فرمایا کہ ''تمہارا حیض تمہارے ہاتھ میں نہیں ہے''۔

(ترمذی)



اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حیض نجاست حکمی ہے حقیقی نہیں اس لیے حائضہ کا جوٹھا اور پسینہ بھی پاک ہے۔ مسجد میں داخل ہونے کی ممانعت کی وجہ سے (حیض والی عورت کے لیے مسجد میں داخلہ منع ہے) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا مصلی لانے سے رکیں ان کو یہ خیال رہا کہ نجاست حقیقی کی طرح حیض کی نجاست پورے بدن کو ناپاک کردیتی ہے۔ اس میں ہاتھ بھی شامل ہے تو ناپاک ہاتھ سے مصلی کس طرح چھوئیں؟ لہذا سرکار مدینہﷺ نے تعلیم فرمائی کہ یہ دیکھنے والی نجاست کی طرح بدن میں نہیں سرایت کرتی۔ پس پتہ چلا کہ حائضہ عورت جائے نماز اور تسبیح وغیرہ چھو سکتی ہے۔

(مسند امام اعظم)




●حائضہ عورت کے جھوٹے کا حکم●


حائضہ عورت کا جوٹھا پاک ہے جیسا کہ مسلم شریف میں ہے کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ زمانہ حیض میں پانی پیتی پھر حضورﷺ کو دیتی تو جس جگہ میرا مونھ لگا تھا سرکارﷺ وہیں دہن مبارک رکھ کر پیتے۔ حالت حیض میں ہڈی نوچ کر حضورﷺ کو دیتی تو حضورﷺ اپنا دہن مبارک اس جگہ رکھتے جہاں میرا مونھ لگا تھا۔

(مسلم شریف)




●حائضہ عودت اپنے شوہر کی خدمت کر سکتی ہے●


حائضہ عورت کا اپنے شوہر کی خدمت کرنا جائز ہے۔ چنانچہ روایت ہے کہ سرکار دوعالمﷺ اپنا سر مبارک دھلوانے کےلیے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے قریب کرتے اس وقت آپ گھر میں ہوتیں، نبی پاکﷺ معتکف ہوتے۔ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا عرض کرتیں، "میں حائضہ ہوں" آپﷺ فرماتے: "حیض تمہارے ہاتھ میں تو نہیں ہے"۔ 



صحیح بخاری میں عروہ سے سوال کیا گیا حیض والی عورت میری خدمت کرسکتی ہے اور جنب عورت مجھ سے قریب ہوسکتی ہے۔ عروہ نے جواب دیا یہ سب مجھ پر آسان ہیں اور یہ سب میری خدمت کرسکتی ہیں اور کسی پر اس میں کوئی حرج نہیں۔ مجھے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ حیض کی حالت میں رسول اللہﷺ کے کنگھا کرتیں اور حضورﷺ معتکف تھے۔ اپنے سر مبارک کو ان سے قریب کردیتے اور یہ اپنے حجرے میں ہوتیں۔ 



عبد اللہ سعد کی روایت ہے، انہوں نے سرکارﷺ سے پوچھا کہ حالت حیض میں بیوی سے کیا چیز حلال ہے۔ آپﷺ نے فرمایا، ازار سے اوپر تیرے لیے حلال ہے۔




●حائضہ کو دینی کتابیں اور اخبار وغیرہ چھونے کا حکم●


حائضہ عورت دینی کتب یا اخبار وغیرہ چھوسکتی ہے اور پڑھ سکتی ہے۔ البتہ ان کو پڑھنے میں یہ احتیاط رکھنی چاہیے کہ اگر اس کتاب یا اخبار وغیرہ میں عین اس جگہ پر جہاں قرآن کی آیت یا ترجمہ لکھا ہو اس پر یا اس کی جگہ پر ہاتھ یا انگلی وغیرہ نہیں لگنی چاہیے، باقی ورق کے چھونے میں حرج نہیں یہی احتیاط بے وضو شخص کو بھی کرنی چاہیے۔

(عامہ کتب)




●حائضہ کے لیے سجدے کا احکام●



حیض والی عورت جب سجدے کی آیت سنے تو اس پر سجدہ تلاوت واجب نہیں، اور خود پڑھے تب بھی واجب نہیں۔ مگر اسے پڑھنا نہیں چاہیے۔




●حائضہ کے لیے اعتکاف کے احکام●


حالت حیض میں اعتکاف کرنا جائز نہیں۔



اگر پاکی میں اعتکاف شروع کیا درمیان میں حیض آگیا تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا، صرف اسی ایک دن کی قضا کرے، جس دن اعتکاف ٹوٹا ہے۔



البتہ مستحاضہ (استحاضہ والی) کے لیے اعتکاف کرنا درست ہے جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ امہات المؤمنین میں سے ایک نے اعتکاف کیا جب کہ وہ مستحاضہ تھیں۔

(بخاری)




●حائضہ کے لیے طلاق وعدت کے احکام●



حیض والی عورت کو اگر طلاق پڑجائے تو طلاق واقع ہوجاتی ہے۔



حیض والی عورت کو اگر طلاق دے دی تو اس کی عدت تین حیض ہے۔



حالت حیض میں طلاق دینا گناہ ہے لیکن طلاق واقع ہوجائے گی، اور جس حیض میں طلاق دی اس کا اعتبار نہیں اس کے علاوہ تین حیض عدت میں گزارے گی۔

(عالمگیری وغیرہ)




●حیض والی عورت کے لیے قرآن مجید پڑھنے کا حکم●



1. حیض والی یا نفاس والی عورت کو قرآن مجید دیکھ کر پڑھنا یا زبانی پڑھنا اس کا چھونا اگرچہ اس کی جلد چولی یا حاشیہ کوہاتھ یا انگلی کی نوک یا بدن کا کوئی حصہ لگے یہ سب حرام ہیں۔



سرکار مدینہﷺ کا ارشاد ہے، "حائضہ اور جنبی (جس پر غسل واجب ہے) قرآن نہیں پڑھ سکتے"۔(ترمذی، ابن ماجہ)



2. کاغذ کے پرچے پر کوئی سورۃ یا آیت لکھی ہو اس کا بھی چھونا حرام ہے۔



3. جزدان میں قرآن مجید ہو اس جزدان کے چھونے میں حرج نہیں۔



4. حالت حیض میں کرتے کے دامن، دوپٹے کے آنچل یا کسی ایسے کپڑے سے جس کو پہنے یا اوڑھے ہوئے ہے قرآن مجید چھونا حرام ہے۔



5. معلّمہ حالت حیض یا نفاس میں ایک ایک کلمہ سانس توڑ توڑ کر پڑھائے۔



6. ہجے کرانے میں کوئی حرج نہیں۔



7. حالت حیض میں دعائے قنوت پڑھنا مکروہ ہے۔

(عالمگیری)



 اگر قرآن شریف ایسے غلاف میں ہو جو قرآن شریف سے جدا ہو جیسے تھیلی یا رومال یا چمڑے یا ریگزین وغیرہ کا ایسا کور ہو جو قرآن شریف سے پیوست نہ ہو تو چھونا جائز ہے اور جو پیوست ہو یا متصل ہو تو جائز نہیں۔



قرآن مجید کے ورق کے اطراف وہ جگہ جہاں قرآن مجید کے الفاظ لکھے ہوئے نہیں اس کا چھونا بھی درست نہیں۔



ایسی عبارت لکھنا جس کی بعض سطروں میں قرآن شریف کی آیت ہو مکروہ ہے اگرچہ وہ اس کو پڑھے نہیں۔



قرآن شریف کا لکھنا جائز نہیں البتہ کاغذ پر ہاتھ لگائے بغیر صرف قلم لگا کر لکھ رہی ہو تو جائز ہے لیکن بہتر ہے کہ نہ لکھے۔



حیض والی عورت جب سجدہ کی آیت سنے تو اس پر سجدہ تلاوت واجب نہیں، اور خود پڑھے تب بھی واجب نہیں۔



ذکر و اذار کے دلائل

ام المؤمنین حضرت عائشہ صیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، رسول اللہﷺ ہر وقت اللہ تعالیٰ کا ذکر فرماتے تھے۔

(امام احمد، مسلم، ابوداؤد)



حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ فرماتے

ہیں،"مومن ناپاک نہیں ہوتا"۔



در مختار میں ہے۔ 

"حائضہ اور جنبی کے لیے دعاؤں کے پڑھنے، انہیں ہاتھ لگانے اور اٹھانے میں کوئی حرج نہیں"۔




●حیض والی عورت کے لیے ذکر واذکار کے احکام●


1. حالت حیض و نفاس میں قرآن مجید کے علاوہ تمام اذکار، کلمہ درود پاک پڑھنا بلا کراہت جائز بلکہ مستحب ہے۔



2. ان کے چھونے میں بھی حرج نہیں۔



3. حیض یا نفاس والی کو اذان کا جواب دینا جائز ہے۔



4. اذکار و درود شریف وغیرہ کو کتابوں کو ساتھ رکھنا بھی درست ہے۔



5. ایسی دعائیں جو قرآن شریف میں آتی ہیں دعا کی نیت سے پڑھنا جائز ہے۔ جب کہ تلاوت کی نیت نہ ہو مثلا الحمد شریف کو پوری سورۃ بہ نیت دعا اور ''ربنا اتنا فی الدنیا''وغیرہ آخر تک پڑھنا منع نہیں شکر کے ارادے سے الحمد للہ کہنا یا کھاتے وقت بسم اللہ شریف پڑھنا جائز ہے۔



6. ''لا حول ولا قوۃ الا باللہ'' یا کوئی وظیفہ وغیرہ پڑھنا بھی جائز ہے۔



7. درود شریف پڑھنا بھی جائز ہے۔




●حیض والی عورت کے لیے مسجد میں جانے کے احکام●



1. حالت حیض یا نفاس میں مسجد میں جانا حرام ہے۔


حضرت ام سلمیٰ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ''سرکارﷺ نے فرمایا جنبی اور حائضہ کے لیے مسجد حلال نہیں''۔

(طبرانی، ابن ماجہ)



2. حالت حیض میں یا نفاس میں اگر چور یا درندے سے ڈر کر مسجد میں بھی گئی تو جائز ہے مگر اسے چاہیے کہ تیمّم کرلے۔



3. مسجد میں پانی رکھا ہے یا کنواں ہے۔ کہیں اور پانی نہیں ملتا تو تیمّم کر کے جانا جائز ہے۔



4. عید گاہ کے اندر جانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔



ہاتھ بڑھا کر مسجد سے کوئی چیز لینا جائز ہے۔



صحیح مسلم میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، فرماتی ہیں کہ حضورﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ"ہاتھ بڑھا کر مسجد سے مصلیٰ اٹھا دینا"۔ عرض کی،"میں حائضہ ہوں" فرمایا کہ " تیرے ہاتھ میں حیض نہیں ہے"۔



سرکار علیہ الصلوۃ والسلام اپنا سر مبارک دھلوانے کے لیے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے قریب کرتے تھے۔ اس وقت آپ رضی اللہ عنہا گھر میں ہوتیں اور سرکارﷺ مسجد میں معتکف ہوتے۔



ام المؤمنین عرض کرتیں میں حائضہ ہوں آپﷺ فرماتے، "حیض تمہارے ہاتھ میں تو نہیں ہے''۔

(جامع ترمذی)



5. عید گاہ،مدرسہ اور وہ جگہ جو نماز پڑھنے کے لیے گھر میں مقرر ہو وہ مسجد کے حکم میں نہیں ہے ان میں داخل ہونا جائز ہے۔