Haiz Ke Masa'il

               ●حیض●


حیض کی تعریف●

بالغہ عورت کے آگے کے مقام سے جو خون عادی طور پر نکلتا ہے اور بیماری یا بچہ پیدا ہونے کے سبب سے نہ ہو، اُسے حَیض کہتے ہیں.

(''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الطہارۃ، الفصل الأول في الحیض، ج1، ص36،37)



حیض کے اسباب●

حضرت حواء علیہا السلام نے جب شجر خلد سے تناول کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو اس میں مبتلا کیا اور اس کو (اسی سبب سے)ان کی بیٹیوں میں قیامت تک باقی رکھا۔

(البحر الرائق جلد اول باب الحیض صفحہ: 331)


جیسا کہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ حیض کی ابتدا حضرت حوا کو اس وقت سے ہوئی جب کہ ان کو جنت سے اتارا گیا ہے۔


بخاری شریف میں" کتاب الحیض" کے باب میں مذکور ہے کہ اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے کہ " یہ وہ شے ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی بیٹیوں پر مقرر کیا ہے"۔

بعض نے کہا ہے کہ سب سے پہلے بنی اسرائیل کی عورتوں سے حیض شروع ہوا۔

(البحر الرائق جلد اول باب الحیض صفحہ: 332) 


شاید اس کا مطلب یہ ہو کہ سب سے پہلے حیض کے احکام بنی اسرائیل پر آئے۔

جیسا کہ حضرت عبد اللہ ابن مسعود سے عبد الرزاق روایت کرتے ہیں کہ بنی اسرائیل کے مرد و عورت سب یکجا نماز پڑھا کرتے تھے اسی میں مرد، عورت ایک دوسرے سے تعلقات قائم کرلیا کرتے تھے، اللہ تعالیٰ نے عورتوں پر حیض کی وجہ پابندی لگادی اور ان کو مساجد میں آنے سے روک دیا۔

(البحر الرائق جلد اول باب الحیض صفحہ: 332)




حیض کی رنگت●

حیض کے چھ رنگ ہیں۔ 1۔ سیاہ       2۔سرخ      3۔سبز      4۔زرد          5۔ گدلا         6۔مٹیلا

سفید رنگ کی رطوبت حیض نہیں۔

("الفتاوی الھندیۃ"، کتاب الطہارۃ، الباب السادس في الدماء المختصۃ بالنساء، الفصل الأول، ج1، ص36)



حیض آنے کی عمر●

کم سے کم نوبرس کی عمر سے حیض شروع ہو گا۔

("الفتاوی الھندیۃ"، کتاب الطہارۃ، الباب السادس في الدماء المختصۃ بالنساء، الفصل الأول، ج1، ص36)




حیض ختم ہونے کی عمر ●

حیض آنے کی انتہائی عمر پچپن (55)سال ہے۔ اس عمر والی عورت کو آئسہ اور اس عمر کو سنِ ایاس کہتے ہیں۔

("الفتاوی الھندیۃ"، کتاب الطہارۃ، الباب السادس في الدماء المختصۃ بالنساء، الفصل الأول، ج1، ص36)




حیض کی حکمت●

عورت بالغہ کے بدن میں فطرۃً ضرورت سے کچھ زِیادہ خون پیدا ہوتا ہے کہ حمل کی حالت میں وہ خون بچے کی غذا میں کام آئے اور بچے کے دودھ پینے کے زمانہ میں وہی خون دودھ ہو جائے اور ایسا نہ ہو تو حمل اور دودھ پلانے کے زمانہ میں اس کی جان پر بن جائے، یہی وجہ ہے کہ حمل اور ابتدائے شیر خوارگی میں خون نہیں آتا اور جس زمانہ میں نہ حمل ہو نہ دودھ پلانا وہ خون اگر بدن سے نہ نکلے تو قِسم قِسم کی بیماریاں ہو جائیں۔




حیض کی مدت●

حَیض کی مدت کم سے کم تین دن تین راتیں یعنی پورے 72 گھنٹے، ایک منٹ بھی اگر کم ہے تو حَیض نہیں اور زِیادہ سے زِیادہ دس دن دس راتیں ہیں۔

("الفتاوی الھندیۃ"، کتاب الطہارۃ، الباب السادس في الدماء المختصۃ بالنساء، الفصل الأول، ج1، ص36)




ایک غلطی کا ازاله ●

عموماً خواتین میں اس بات کی غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ اگر ایک یا دو دن خون آئے تو وہ اس کو بھی حیض سمجھتی ہیں اور نماز وغیرہ چھوڑ دیتی ہیں۔ یہ ذہن نشین رکھیں کہ تین دن سے کم مدت کا خون ہر گز حیض نہیں، بلکہ 72 گھنٹے سے ذرا بھی پہلے خون ختم ہوجائے تو حیض نہیں۔


بعض کو خون مسلسل نہیں آتا کمزوری یا بیماری کی وجہ سے وقفے وقفے سے آتا ہے مگر تین دن آتا ہے لیکن یہ تین دن دس دن میں پورے ہوتے ہیں تو اسی طرح عموماً دس دن کے بعد اگر خون آجائے تو خواتین اس کو حیض سمجھتی ہیں ایسا نہیں بلکہ اگر دس دن کے بعد بھی خون جاری ہوا تو یہ حیض نہیں۔


دارقطنی نے حضرت ابی امامہ سے روایت کیا کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا،

باکرہ اور شادی شدہ عورت کے لیے حیض کی کم سے کم مدت تین دن ہے اور زیادہ سے زیادہ مدت دس دن ہے اور دس دن سے زائد ہو تو وہ عورت مستحاضہ ہے۔

(فتح القدیر، صفحہ 143 جلد 1، باب الحیض)





دو حیض کے درمیان پاکی کی مدت●

دو حَیضوں کے درمیان کم سے کم پورے پندرہ دن کا فاصلہ ضروری ہے۔ تو اگر حیض ختم ہونے کے بعد پندرہ دن پورے نہ ہوئے تھے کہ خون آیا تو یہ اِستحاضہ ہے۔

("الدرالمختار" و"ردالمحتار"، کتاب الطہارۃ، باب الحیض، ج1، ص524)





حیض کے مسائل●

72 گھنٹے سے ذرا بھی پہلے ختم ہو جائے تو حَیض نہیں بلکہ اِستحاضہ ہے ہاں اگر کرن چمکی تھی کہ شروع ہوا اور تین دن تین راتیں پوری ہو کر کرن چمکنے ہی کے وقت ختم ہوا تو حَیض ہے اگرچہ دن بڑھنے کے زمانہ میں طلوع روز بروز پہلے اور غروب بعد کو ہوتا رہے گا اور دن چھوٹے ہونے کے زمانہ میں آفتاب کا نکلنا بعد کو اور ڈوبنا پہلے ہوتا رہے گا جس کی وجہ سے ان تین دن رات کی مقدار 72 گھنٹے ہونا ضرور نہیں مگر عین طلوع سے طلوع اور غروب سے غروب تک ضرور ایک دن رات ہے ان کے ماسوا اگر اَور کسی وقت شروع ہوا تو وہی 24 گھنٹے پورے کاایک دن رات لیا جائے گا، مثلاً آج صبح کو ٹھیک نو بجے شروع ہوا اور اس وقت پورا پہردن چڑھا تھا تو کل ٹھیک نو بجے ایک دن رات ہو گا اگرچہ ابھی پورا پہربھردن نہ آیا، جب کہ آج کا طلوع کل کے طلوع سے بعد ہو، یا پہر بھر سے زِیادہ دن آگیا ہوجب کہ آج کا طلوع کل کے طلوع سے پہلے ہو۔ 



دس رات دن سے کچھ بھی زِیادہ خون آیا تو اگر یہ حَیض پہلی مرتبہ اسے آیاہے تو دس دن تک حَیض ہے بعد کا اِستحاضہ اور اگر پہلے اُسے حَیض آچکے ہیں اور عادت دس دن سے کم کی تھی تو عادت سے جتنا زِیادہ ہو اِستحاضہ ہے۔ اسے یوں سمجھو کہ اس کو پانچ دن کی عادت تھی اب آیا دس دن تو کل حَیض ہے اور بارہ دن آیا تو پانچ دن حَیض کے باقی سات دن اِستحاضہ کے اور ایک حالت مقرر نہ تھی بلکہ کبھی چار دن کبھی پانچ دن تو پچھلی بار جتنے دن تھے وہی اب بھی حَیض کے ہیں باقی اِستحاضہ۔

("الفتاوی الھندیۃ"، کتاب الطہارۃ، الفصل الأول في الحیض، ج1، ص37)



یہ ضروری نہیں کہ مدت میں ہر وقت خون جاری رہے جب ہی حَیض ہو بلکہ اگر بعض بعض وقت بھی آئے جب بھی حَیض ہے۔ 

("الدرالمختار" و "ردالمحتار"، کتاب الطہارۃ، باب الحیض، ج1، ص523) 




نو برس کی عمر سے پیشتر جو خون آئے اِستحاضہ ہے۔ یوہیں پچپن سال کی عمر کے بعد جو خون آئے۔

("الفتاوی الھندیۃ"، کتاب الطہارۃ، الباب السادس في الدماء المختصۃ بالنساء، الفصل الأول، ج1، ص36)




ہاں پچھلی صورت میں اگر خالص خون آئے یا جیسا پہلے آتا تھا اسی رنگ کا آیا تو حَیض ہے۔



حمل والی کو جو خون آیا اِستحاضہ ہے۔ یوہیں بچہ ہوتے وقت جو خون آیااور ابھی آدھے سے زِیادہ بچہ باہر نہیں نکلا وہ اِستحاضہ ہے۔

("الدرالمختار" و "ردالمحتار"، کتاب الطہارۃ، باب الحیض، ج1، ص524) 



حَیض اس وقت سے شمار کیا جائے گا کہ خون فرجِ خارِج میں آگیا تو اگر کوئی کپڑا رکھ لیا ہے جس کی وجہ سے فرجِ خارِج میں نہیں آیا داخل ہی میں رُکا ہوا ہے تو جب تک کپڑا نہ نکالے گی حَیض والی نہ ہو گی۔ نمازیں پڑھے گی، روزہ رکھے گی۔

("الفتاوی الھندیۃ"، کتاب الطہارۃ، الباب السادس في الدماء المختصۃ بالنساء، الفصل الأول، ج1، ص36)



دس دن کے اندر رطوبت میں ذرا بھی میلا پن ہے تووہ حَیض ہے اور دس دن رات کے بعد بھی میلا پن باقی ہے تو عادت والی کے لیے جو دن عادت کے ہیں حَیض ہے اور عادت سے بعد والے اِستحاضہ اور اگرکچھ عادت نہیں تو دس دن رات تک حَیض باقی اِستحاضہ۔

("الفتاوی الھندیۃ"، کتاب الطہارۃ، الباب السادس في الدماء المختصۃ بالنساء، الفصل الأول، ج1، ص37، وغیرہ)



گدّی جب تر تھی تو اس میں زردی یا میلا پن تھا بعد سُوکھ جانے کے سفید ہو گئی تو مدت حَیض میں حَیض ہی ہے اور اگر جب دیکھا تھا سفید تھی سُوکھ کر زرد ہوگئی تو یہ حَیض نہیں۔

("الفتاوی الھندیۃ"، کتاب الطہارۃ، الباب السادس في الدماء المختصۃ بالنساء، الفصل الأول، ج1، ص36، وغیرہ)



جس عورت کو پہلی مرتبہ خون آیا اور اس کا سلسلہ مہینوں یا برسوں برابر جاری رہاکہ بیچ میں پندرہ دن کے لیے بھی نہ رُکا، تو جس دن سے خون آنا شروع ہوااس روز سے دس دن تک حَیض اور بیس دن اِستحاضہ کے سمجھے اور جب تک خون جاری رہے یہی قاعدہ برتے۔

("الدرالمختار" و "ردالمحتار"، کتاب الطہارۃ، مبحث في مسائل المتحیرۃ، ج1، ص525)



اور اگر اس سے پیشتر حَیض آچکا ہے تو اس سے پہلے جتنے دن حَیض کے تھے ہر تیس دن میں اتنے دن حَیض کے سمجھے باقی جو دن بچیں اِستحاضہ۔


جس عورت کو عمر بھر خون آیا ہی نہیں یا آیا مگر تین دن سے کم آیا، تو عمر بھر وہ پاک ہی رہی اور اگر ایک بار تین دن رات خون آیا، پھر کبھی نہ آیا تووہ فقط تین دن رات حَیض کے ہیں باقی ہمیشہ کے لیے پاک۔

("الدرالمختار" و "رد المحتار"، کتاب الطہارۃ، باب الحیض، ج1، ص524)



جس عورت کو دس دن خون آیا اس کے بعد سال بھرتک پاک رہی پھر برابر خون جاری رہا تووہ اس زمانہ میں نماز، روزے کے لیے ہر مہینہ میں دس دن حَیض کے سمجھے بیس دن اِستحاضہ۔

("ردالمحتار"، کتاب الطہارۃ، با ب الحیض، ج1، ص525)



کسی عورت کو ایک بار حَیض آیا، اس کے بعد کم سے کم پندرہ دن تک پاک رہی، پھر خون برابر جاری رہا اور یہ یاد نہیں کہ پہلے کتنے دن حَیض کے تھے اور کتنے طہر کے مگر یہ یاد ہے کہ مہینے میں ایک ہی مرتبہ حَیض آیا تھا ،تو اس مرتبہ جب سے خون شروع ہوا تین دن تک نماز چھوڑ دے ،پھر سات دن تک ہر نماز کے وقت میں غُسل کرے اور نماز پڑھے اور ان دسوں دن میں شوہر کے پاس نہ جائے، پھر بیس دن تک ہر نمازکے وقت تازہ وُضو کرکے نماز پڑھے اور دوسرے مہینہ میں اُنیس دن وُضو کرکے نماز پڑھے اور ان بیس یا ان اُنیس دن میں شوہر اس کے پاس جا سکتا ہے اور جو یہ بھی یاد نہ ہو کہ مہینے میں ایک بار آیا تھا یا دو بار، تو شروع کے تین دن میں نماز نہ پڑھے، پھر سات دن تک ہر وقت میں غُسل کر کے نماز پڑھے، پھر آٹھ دن تک ہر وقت میں وُضو کرکے نماز پڑھے اور صرف ان آٹھ دنوں میں شوہر اس کے پاس جاسکتا ہے اور ان آٹھ دن کے بعد بھی تین دن تک ہروقت میں وضوکرکے نماز پڑھے، پھر سات دن تک غُسل کر کے اور اس کے بعد آٹھ دن تک وُضو کر کے نماز پڑھے اور یہی سلسلہ ہمیشہ جاری ر کھے ۔



اور اگر طہارت کے دن یاد ہیں ،مثلاً پندرہ دن تھے اور باقی کوئی بات یاد نہیں تو شروع کے تین دن تک نمازنہ پڑھے،پھر سات دن تک ہر وقت غُسل کرکے نماز پڑھے، پھر آٹھ دن وُضو کرکے نماز پڑھے، اس کے بعد پھر تین دن اَور وُضو کرکے نماز پڑھے، پھر چودہ دن تک ہر وقت غُسل کرکے نماز پڑھے، پھر ایک دن وُضو ہر وقت میں کرے اور نماز پڑھے، پھر ہمیشہ کے لیے جب تک خون آتا رہے ہر وقت غُسل کرے۔ 



اور اگر حَیض کے دن یاد ہیں مثلاً تین دن تھے اور طہارت کے دن یاد نہ ہوں تو شروع سے تین دنوں میں نماز چھوڑ دے، پھر اٹھارہ دن تک ہر وقت وُضو کرکے نماز پڑھے جن میں پندرہ پہلے تو یقینی طُہر ہیں اور تین دن پچھلے مشکوک ،پھر ہمیشہ ہر وقت غُسل کرکے نماز پڑھے اور اگریہ یاد ہے کہ مہینے میں ایک ہی بار حَیض آیا تھا اور یہ کہ وہ تین دن تھامگریہ یاد نہیں کہ وہ کیا تاریخیں تھیں، تو ہر ماہ کے ابتدائی تین دنوں میں وُضو کرکے نماز پڑھے اور ستائیس دن تک ہر وقت غُسل کرے۔ یوہیں چار دن یا پانچ دن حَیض کے ہونا یاد ہوں تو ان چار پانچ دنوں میں وُضو کرے باقی دنوں میں غُسل۔ 



اور اگر یہ معلوم ہے کہ آخر مہینے میں حَیض آتا تھا اور تاریخیں بھول گئی تو ستائیس دن وُضو کرکے نماز پڑھے اور تین دن نہ پڑھے ،پھر مہینہ ختم ہونے پر ایک بار غُسل کرلے۔ 



اور اگر یہ معلوم ہے کہ اکیس سے شروع ہوتا تھا اور یہ یاد نہیں کہ کتنے دن تک آتا تھا ،تو بیس کے بعد تین دن تک نماز چھوڑدے، اس کے بعد سات دن جو رہ گئے ان میں ہر وقت غُسل کرکے نماز پڑھے۔ 



اور اگر یہ یاد ہے کہ فلاں پانچ تاریخوں میں تین 3 دن آیا تھامگر یہ یاد نہیں کہ ان پانچ 5 میں وہ کون کون دن ہیں، تو دو پہلے دنوں میں وُضو کرکے نماز پڑھے اور ایک دن بیچ کا چھوڑدے اور اس کے بعد کے دو 2 دنوں میں ہر وقت غُسل کرکے پڑھے اور چار 4 دن میں تین 3 دن ہیں تو پہلے دن وُضو کرکے پڑھے اور چوتھے 4 دن ہر وقت میں غُسل کرے اور بیچ کے دو دنوں میں نہ پڑھے اور اگر چھ 6 دنوں میں تین دن ہوں تو پہلے تین 3 دنوں میں وُضو کر کے پڑھے، پچھلے تین دنوں میں ہر وقت میں غُسل کرکے اور اگر سات 7 یا آٹھ 8 یا نو 9 یا دس 10 دن میں تین دن ہوں تو پہلے تین دنوں میں وضواور باقی دنوں میں ہر وقت غُسل کرے۔ 



خلاصہ یہ کہ جن دنوں میں حَیض کا یقین ہو اور ٹھیک طرح سے یہ یاد نہ ہو کہ ان میں وہ کون سے دن ہیں تو یہ دیکھنا چاہیے کہ یہ دن حَیض کے دنوں سے دُونے ہیں یا دُونے سے کم یا دُونے سے زِیادہ، اگر دُونے سے کم ہیں تو ان میں جودن یقینی حَیض ہونے کے ہوں ان میں نماز نہ پڑھے اور جن کے حَیض ہونے نہ ہونے دونوں کا احتمال ہو وہ اگر اول کے ہوں تو ان میں وُضو کرکے نماز پڑھے اور آخر کے ہوں تو ہر وقت میں غُسل کر کے نماز پڑھے اور اگر دُونے یا دُونے سے زِیادہ ہوں تو حَیض کے دنوں کے برابر شروع کے دنوں میں وُضو کرکے نماز پڑھے، پھر ہر وقت میں غُسل کرکے اور اگر یاد نہ ہو کہ کتنے دن حَیض کے تھے اور کتنے طہارت کے، نہ یہ کہ مہینے کے شروع کے دس دنوں میں تھا یا بیچ کے دس یا آخر کے دس دنوں میں، تو جی میں سوچے جو پہلوجمے اس پر پابندی کرے اور اگر کسی بات پر طبیعت نہیں جمتی، تو ہر نماز کے لیے غُسل کرے اور فرض و واجب و سنّت موکدہ پڑھے، مستحب اور نَفْل نہ پڑھے اور فرض روزے رکھے، نَفْل روزے نہ رکھے اور ان کے علاوہ اور جتنی باتیں حَیض والی کو جائز نہیں اس کو بھی ناجائز ہیں، جیسے قرآن پڑھنا یا چھونا، مسجد میں جانا، سجدہ تلاوت وغیرہا۔

جس عورت کو نہ پہلے حَیض کے دن یاد، نہ یہ یاد کہ کن تاریخوں میں آیا تھا، اب تین دن یا زِیادہ خون آکر بند ہو گیا، پھر طہارت کے پندرہ دن پورے نہ ہوئے تھے کہ پھر خون جاری ہوا اور ہمیشہ کو جاری ہو گیا تو اس کا وہی حکم ہے جیسے کسی کو پہلی پہل خون آیا اور ہمیشہ کو جاری ہو گیا کہ دس دن حَیض کے شمار کرے پھر بیس دن طہارت کے۔ 



جس کی ایک عادت مقرر نہ ہو بلکہ کبھی مثلاً چھ دن حَیض کے ہوں اور کبھی سات، اب جو خون آیا تو بند ہوتا ہی نہیں، تو اس کے لیے نماز، روزے کے حق میں کم مدت یعنی چھ دن حَیض کے قرار دیے جائیں گے اور ساتویں روز نہا کر نماز پڑھے اور روزہ رکھے مگر سات دن پورے ہونے کے بعد پھر نہانے کا حکم ہے اور ساتویں دن جو فرض روزہ رکھا ہے اس کی قضا کرے اور عدت گزرنے یا شوہر کے پاس رہنے کے بارے میں زِیادہ مدت یعنی سات دن حَیض کے مانے جائیں گے یعنی ساتویں دن اس سے قربت جائز نہیں۔ 



کسی کو ایک دودن خون آکر بند ہو گیا اور دس دن پورے نہ ہوئے کہ پھر خون آیا دسویں دن بند ہو گیا تو یہ دسوں دن حَیض کے ہیں اور اگر دس دن کے بعدبھی جاری رہا تو اگر عادت پہلے کی معلوم ہے تو عادت کے دنوں میں حَیض ہے باقی اِستحاضہ ورنہ دس دن حَیض کے باقی اِستحاضہ۔ 

("الفتاوی الھندیۃ"، کتاب الطہارۃ، الباب السادس في الدماء المختصۃ بالنساء، الفصل الأول، ج1، ص37)



کسی کی عادت تھی کہ فلاں تاریخ میں حَیض ہو، اب اس سے ایک دن پیشتر خون آکر بند ہو گیا، پھر دس 10 دن تک نہیں آیا اور گیارھویں 11 دن پھر آگیا تو خون نہ آنے کے جو یہ دس 10 دن ہیں ،ان میں سے اپنی عادت کے دنوں کے برابر حَیض قرار دے اور اگر تاریخ تو مقرر تھی مگر حَیض کے دن مُعیّن نہ تھے تو یہ دسوں 10 دن خون نہ آنے کے حَیض ہیں۔



جس عورت کو تین 3 دن سے کم خون آکر بند ہو گیا اور پندرہ 15 دن پورے نہ ہوئے کہ پھر آگیا، تو پہلی مرتبہ جب سے خون آنا شروع ہوا ہے حَیض ہے، اب اگر اس کی کوئی عادت ہے توعادت کے برابر حَیض کے دن شمار کرلے۔ ورنہ شروع سے دس 10 دن تک حَیض اور پچھلی مرتبہ کا خون اِستحاضہ۔



کسی کو پورے تین دن رات خون آکر بند ہو گیا اور اس کی عادت اس سے زِیادہ کی تھی پھر تین دن رات کے بعد سفید رطوبت عادت کے دنوں تک آتی رہی تو اس کے لیے صرف وہی تین دن رات حَیض کے ہیں اور عادت بدل گئی۔

تین(3) دن رات سے کم خون آیا ،پھر پندرہ دن تک پاک رہی ،پھر تین دن رات سے کم آیا تو نہ پہلی مرتبہ کا حَیض ہے نہ یہ بلکہ دونوں اِستحاضہ ہیں۔