●استحاضہ کی تعریف●
بالغہ عورت کے آگے کے مقام سے جو خون بیماری کے سبب سے نکلتا ہے اُسے اِستحاضہ کہتے ہیں۔
("الفتاوی الھندیۃ"، کتاب الطہارۃ، الفصل الأول فی الحیض، ج1، ص36،37،وغیرہ)
●استحاضہ کے مسائل●
نوٹ: اگر کسی عورت کو ایسا خون جاری ہو کہ اس کا وضو برقرار نہیں رہ سکتا ہو یعنی اس کو پوری نماز کے وقت میں اتنا موقع نہ ملے کہ وہ اس وقت کی نماز فرض، واجب وغیرہ کے ساتھ پڑھ سکے تو وہ معذور سمجھی جائے گی۔ وہ وضو کر کے نماز ادا کرے اگرچہ خون بہتا رہے۔
(در مختار)
ایک وضو سے اس وقت جتنی نمازیں چاہے پڑھے اس کا وضو نہیں جائے گا۔
مسئلہ: استحاضہ میں نہ نماز معاف ہے اور نہ روزہ اور نہ ایسی عورت سے صحبت حرام ہے۔
استحاضہ چونکہ بیماری کا خون ہوتا اس لیے اس میں نماز معاف نہیں۔
اکثر عورتوں میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ وہ استحاضہ کی حالت میں نمازیں قضا کردیتی ہیں اور اس کو مثل حیض کے سمجھتی ہیں۔ حالانکہ جان بوجھ کر بلا شرعی مجبوری ایک نماز قضا کرنا حرام اور سخت گناہ ہے۔ لہٰذا اس حالت میں نمازوں کا اہتمام کریں۔
مسئلہ: استحاضہ اگر اس حد کو پہنچ گیا کہ اتنی
مہلت نہیں ملتی کہ وضو کر کے فرض نماز ادا کرسکے تو نماز کا پورا ایک وقت شروع سے آخر تک اسی حالت میں گزر جانے پر اس کو معذور کہا جائے گا۔ ایک وضو سے اس وقت میں جتنی نمازیں چاہے پڑھے۔ خون آنے سے اس کا وضو نہ جائے گا۔
مسئلہ: استحاضہ کی حالت میں ہر نماز نئے وضو سے ادا کی جائے۔ استحاضہ والی عورت اگر غسل کر کے ظہر کی نماز آخر وقت میں اور وضو کر کے عصر کی اول وقت میں اور پھر غسل کر کے مغرب کی نماز آخری وقت میں وضو کر کے عشاء کی نماز اول وقت میں پڑھے اور فجر بھی غسل کر کے پڑھے تو بہتر ہے۔ کیوں کہ ہوسکتا ہے کہ اس کی برکت سےا س کے مرض کو بھی فائدہ پہنچے۔
(بہار شریعت حصہ دوم)
نوٹ: اگر کپڑا ایک درہم کی مقدار میں آلودہ ہوجائے تو اسے چاہیے کہ اسے بدل کر نماز پڑھے۔
مسئلہ: اگر ابتدا ہی سے خون اس طرح جاری ہوگیا کہ دو خونوں کے درمیان پندرہ دن کا وقفہ نہیں رہتا تواس کا یہ حکم ہے کہ شروع سے دس دن حیض ہوگا اور بیس دن زائد استحاضہ۔
(در مختار)
مسئلہ: اگر کسی کی عادت پہلی تاریخ سے پانچ تاریخ تک کی ہے اب خلاف معمول تین تاریخ سے تیرہ تاریخ تک گیارہ دن خون آیا چونکہ عادت کے ایام میں تین تاریخ سے پانچ تاریخ تک تین دن ہوتے ہیں لہذا یہ حیض ہے باقی استحاضہ اور عادت بدل جائے گی۔
مسئلہ: کسی عورت کو گیارہ دن خون آیا پھر پندرہ دن طہر (پاکی) کے گزرے اور اس کے بعد پھر خون جاری ہوگیا بس شروع کے دس دن حیض اور باقی طہر (پاکی کے)۔
مسئلہ: اگر تین دن خون آنےکی عادت ہے لیکن کسی مہینےمیں ایسا ہوا کہ تین دن پورے ہوچکے اور ابھی خون بند نہیں ہوا تو ابھی غسل نہ کرے نہ نماز پڑھے۔ اگر پورے دس دن رات پر یا اس سے کم میں خون بند ہوجائے تو اِن سب دنوں کی نمازیں معاف ہیں، کیوں کہ عادت بدل گئی ہے اور سب دن حیض میں شمار ہوں گے۔ اور اگر گیارہویں دن بھی حیض آیا تو حیض فقط تین دن ہے اور سات دن استحاضہ کے ہیں۔ گیارہویں دن غسل کرے اور سات دنوں کی نمازیں قضا کرے۔
مسئلہ: کسی مستحاضہ (جس عورت کو استحاضہ ہوا) نے وضو کیا تو جس نماز کے وقت وضو کیا جب تک وہ وقت باقی رہے گا۔ اس کا وضو بر قرار رہے گا اس وضو سے وہ فرض، نفل وغیرہ پڑھ سکتی ہے۔ البتہ جیسے ہی اس نماز کا وقت ختم ہوا اس کا وضو ٹوٹ جائےگا۔
مسئلہ: اگر مستحاضہ نے فجر کے وقت وضو کیا، سورج نکلنے کے بعد وہ چاشت کی نماز وغیرہ پڑھنا چاہتی ہے تو نئے سرے سے وضو کر کے پڑھے کیوں کہ سورج نکلنے کے ساتھ ہی فجر کا وقت ختم ہو جاتا ہے۔
مسئلہ: سورج نکلنے کے بعد وضو کیا تو اس سے ظہر کی نماز پڑھ سکتی ہے کیوں کہ کسی نماز کا وقت داخل ہونے سے وضو نہیں ٹوٹتا بلکہ نماز کا وقت نکلنے سے وضو ٹوٹتا ہے۔
مسئلہ: اگر ابتداء ہی سے خون اس طرح جاری ہوگیا کہ دو خونوں کے درمیان پندرہ دن کا وقفہ نہیں رہتا تو اس کا حکم یہ ہے کہ شروع سے دس دن حیض ہوگا اور بیس دن استحاضہ۔
مسئلہ: مستحاضہ نے وضو کیا اس کے بعد اس کا خون رکا رہا اور اس دوران پیشاب وغیرہ سے وضو ٹوٹ گیا پھر دوبارہ وضو کرلیا اس کے بعد نماز کا وقت نکل گیا لیکن ابھی تک خون جاری نہیں ہوا تو وضو نہ ٹوٹے گا البتہ جب خون دوبارہ شروع ہوجائے گا تو وضو ٹوٹ جائےگا.
(در مختار)
مسئلہ: اگر مستحاضہ نے وضو کیا اور پھر وضو توڑنے والی چیزیں مثلاً پیشاب، پاخانہ یا ہوا نکلی تو اس کا وضو ٹوٹ جائےگا۔ اب دوبارہ وضو کر کے نماز پڑھے۔
مسئلہ: اگر کسی ترکیب سے عذر جاتا رہے یا اس میں کمی ہوجائے تو اس ترکیب کا کرنا فرض ہے۔ مثلا کھڑے ہوکر پڑھنے سے خون بہتا ہے تو بیٹھ کر پڑھے تو نہ بہے گا تو بیٹھ کر فرض ہے۔
(عالمگیری)
مسئلہ: ایک عورت کی عادت مقرر نہ تھی بلکہ کبھی مثلا چھ دن حیض کے ہوں اور کبھی سات دن، اب جو خون آیا تو بند ہوتا ہی نہیں تو اس کے لیے نماز روزے کے حق میں کم مدت یعنی چھ دن حیض کے قراردئیے جائیں گے اور ساتویں روز نہا کر نماز کر پڑھے اور روزہ رکھے (جب کہ رمضان ہوں) مگر سات دن پورے ہونے کے بعد پھر نہانے کا حکم ہے اور ساتویں دن جو فرض روزہ رکھا ہے اس کی قضا کرے، اور مدت گزرنے کے یا شوہر کے پاس رہنے کے بارے میں زیادہ مدت جائز نہیں۔
(بدائع)
مسئلہ: جب پورا وقت گزر جائے اور وہ چیز نہ پائی جائے جس کی وجہ سے اسے معذور کہا گیا تھا۔ مثلا خون نہ آیا تو اب معذور نہ رہی۔
(در مختار)
●استحاضہ میں نماز معاف نہیں●
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ فاطمہ بنت جحش حضورﷺ کی خدمت میں آئیں اور عرض کیا،یا رسول اللہﷺ! مجھے استحاضہ آتا ہے میں کبھی پاک نہیں ہوتی کیا میں نماز ترک کردوں؟ آپﷺ نے فرمایا "نہیں! یہ تو ایک رگ ہے حیض نہیں ہے، حیض کے دنوں میں نماز ترک کردو پھر غسل کرو، ہر نماز کے لیے وضو کرتی رہو چاہے خون چٹائی پر گرتا رہے"۔
(ترمذی)
●استحاضہ کی اقسام●
• نو سال سے کم عمر بچی کو جو خون آئے وہ استحاضہ ہے۔
• پچپن سال یااس سے زیادہ عمر کی عورت کو آئے تو استحاضہ ہے۔
• تین دن سے جو کم ہو وہ استحاضہ ہے۔
• حیض میں دس دن رات سے جو زیادہ ہو وہ استحاضہ ہے۔
• نیز حالت حمل میں آنے والا خون بھی استحاضہ ہے۔
عورت کے پیشاب کے مقام سے جو رطوبت نکلتی ہے وہ دو قسم کی ہوتی ہے۔
1. فرج خارج کی رطوبت۔
2. فرج داخل کی رطوبت۔
●فرج خارج کی رطوبت●
عورت کی فرج خارج کی رطوبت وہ ہوتی جو بغیر کسی بیماری کے پسینے وغیرہ کی صورت میں آئے۔
حکم: ایسی رطوبت کا حکم یہ ہے کہ یہ پاک ہے کپڑے یا بدن میں لگے تو دھونا کچھ ضروری نہیں ہاں دھولینا بہتر ہے۔
(بہار شریعت)
●فرج داخل کی رطوبت●
عورت کی فرج داخل کی رطوبت ہوتی ہے جو پانی کی طرح آگے کی راہ سے آتی ہے۔ بیماری وغیرہ کی وجہ سے اسے سیلان رحم (لیکیوریا) کہتے ہیں۔
حکم: یہ پانی و رطوبت جو خارج ہوتی ہے۔ نجس (ناپاک) ہوتی ہے۔
لہٰذا یہ کپڑے یا جسم پر لگ جائے تو وہ بھی ناپاک ہوجاتا ہے اس سے وضو بھی ٹوٹ جاتا ہے۔
(بدائع)
●اگر رطوبت مسلسل جاری ہو●
رطوبت مسلسل جاری ہو تو اگر نماز کا پورا وقت اس حال میں گذرتا ہے کہ بالکل وقفہ نہیں ہوتا، تو چاہیے کہ وضو کر کے نماز ادا کرے۔ یہ عورت معذور کے حکم میں ہے۔
●اگر وقفہ وقفہ سے رطوبت آئے●
اگر وقفہ وقفہ سے رطوبت آئے یعنی کسی وقت رطوبت آتی ہے اور کسی وقت نہیں آتی تو جس وقت رطوبت آئے اس وقت نماز نہ پڑھے۔ جیسے ہی رطوبت رک جائے تیزی سے کپڑے بدل کر یا اس حصے کو دھو کر نماز پڑھ لے اور اگر نماز پاکی کی حالت میں شروع کی اور نماز کے دوران رطوبت خارج ہوگئی تو وضو ٹوٹ جائے گا اور پھر سے نماز پڑھنی پڑے گی۔
(در مختار)
●اگر رطوبت کے خارج ہونے کا پتہ چلے●
اگر رطوبت کے خارج ہونے کا پتہ نہیں چلتا ہو تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ جب نماز شروع کی تو رطوبت بند تھی۔ جب نماز پڑھ چکی اور دیکھا کہ گدی تر تھی تو جب تک نماز میں وضو ٹوٹنے کا یقین نہ ہو نماز ہوجائے گی۔
(رد المختار)
●اس میں وضو قائم رکھنے کا طریقہ●
ایسی عورت شرمگاہ میں روئی رکھ لے۔ یہ پانی جذب کرلے گی۔ جب تک رطوبت روئی کے اس حصے میں نہیں آتی جو فرج خارج میں ہے تو اس وقت تک وضو نہیں ٹوٹے گا۔
نوٹ: عموما خواتین اس بیماری میں مبتلا ہوتی ہیں انہیں احتیاط کرنی چاہیے کہ ایک درہم تھیلی کے پھیلاؤ کے برابر لگ جائے تو اسے دھو کر پھر نماز پڑھے۔